تمام سنی زہر کا پیالہ پی لیں خاص کر حب دار صحابہ کے دعویدار ۔۔۔۔ کہ آج شیعہ اٹھ کر کراچی میں پاڑا چنار کے شر پسندوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور آپ لوگ کہتے ہیں " اگر قائد اہل سنت ( اورنگزیب فاروقی) نے ہمیں اجازت دی تو ہم سارے ملک کو بند کر دیں گے " آپ کا قائد اہل سنت لمڈ بھی کسی کا نہیں اکھاڑ سکتا ۔ تمام سنی علاقوں میں اشیاء خوردونوش ختم ہونے کو ہے جس میں بوشہرہ سر فہرست ہے ۔۔۔ یہاں میڈیا پر منافق سنی پاڑا چنار کو مظلوم باور کروانے میں لگے ہے جب کہ حقیقت میں سنی کئی علاقے اس وقت دنیا سے منقطع ہے ۔۔۔ تمام پاکستانی سنی چوڑیاں پہن کر مہندی لگا کر اپنے گھروں میں دلہنوں کے کپڑے پہن لیں کیونکہ آپ لوگوں میں مردانگی ختم ہو چکی ہے تمام سنی زہر کا پیالہ پی لیں خاص کر حب دار صحابہ کے دعویدار ۔۔۔۔ کہ آج شیعہ اٹھ کر کراچی میں پاڑا چنار کے شر پسندوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور آپ لوگ کہتے ہیں " اگر قائد اہل سنت ( اورنگزیب فاروقی) نے ہمیں اجازت دی تو ہم سارے ملک کو بند کر دیں گے " آپ کا قائد اہل سنت لمڈ بھی کسی کا نہیں اکھاڑ سکتا ۔ تمام سنی علاقوں میں اشیاء خوردونوش ختم ہونے کو ہے جس میں بوشہرہ سر فہرست ہے ۔۔۔ یہاں میڈیا پر منافق سنی پاڑا چنار کو مظلوم باور کروانے میں لگے ہے جب کہ حقیقت میں سنی کئی علاقے اس وقت دنیا سے منقطع ہے ۔۔۔ تمام پاکستانی سنی چوڑیاں پہن کر مہندی لگا کر اپنے گھروں میں دلہنوں کے کپڑے پہن لیں کیونکہ آپ لوگوں میں مردانگی ختم ہو چکی ہے با ادب گستاخ با ادب گستاخ تمام سنی زہر کا پیالہ پی لیں خاص کر حب دار صحابہ کے دعویدار ۔۔۔۔ کہ آج شیعہ اٹھ کر کراچی میں پاڑا چنار کے شر پسندوں کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور آپ لوگ کہتے ہیں " اگر قائد اہل سنت ( اورنگزیب فاروقی) نے ہمیں اجازت دی تو ہم سارے ملک کو بند کر دیں گے " آپ کا قائد اہل سنت لمڈ بھی کسی کا نہیں اکھاڑ سکتا ۔ تمام سنی علاقوں میں اشیاء خوردونوش ختم ہونے کو ہے جس میں بوشہرہ سر فہرست ہے ۔۔۔ یہاں میڈیا پر منافق سنی پاڑا چنار کو مظلوم باور کروانے میں لگے ہے جب کہ حقیقت میں سنی کئی علاقے اس وقت دنیا سے منقطع ہے ۔۔۔ تمام پاکستانی سنی چوڑیاں پہن کر مہندی لگا کر اپنے گھروں میں دلہنوں کے کپڑے پہن لیں کیونکہ آپ لوگوں میں مردانگی ختم ہو چکی ہے با ادب گستاخ
Golden stories
جمعہ، 27 دسمبر، 2024
پیر، 23 دسمبر، 2024
جمعہ، 20 دسمبر، 2024
Partis Hilton the American media personality
Paris Hilton, the American media personality and businesswoman, has recently been in the spotlight for several notable endeavors and personal milestones. Advocacy Against Institutional Child Abuse Hilton has been actively advocating for the "Stop Institutional Child Abuse Act," a bill aimed at preventing child abuse in congregate care facilities. Drawing from her own traumatic experiences at a boarding school in Utah, she has passionately lobbied for legislative reforms to protect vulnerable children. On December 16, 2024, the U.S. Senate unanimously passed the bill, marking a significant victory for Hilton and her fellow advocates. She continues to urge the House of Representatives to prioritize and pass the legislation before the session concludes. Musical Comeback with "Infinite Icon" After an 18-year hiatus from the music industry, Hilton released her second studio album, "Infinite Icon," on September 6, 2024. Produced by Sia, the album features collaborations with artists like Rina Sawayama, Meghan Trainor, and Megan Thee Stallion. The lead single, "I'm Free," featuring Sawayama, was unveiled in June 2024, followed by "Chasin'" and "BBA." Hilton's return to music has been met with enthusiasm, particularly within the LGBTQ+ community, as she dedicated the album to her LGBTQ+ fans. Family Life and Holiday Celebrations On December 17, 2024, Hilton attended her mother Kathy Hilton's holiday party in Bel-Air, accompanied by her husband, Carter Reum, and their children, Phoenix and London. The event was a star-studded affair, featuring performances by family members, including Hilton herself, who delighted guests with a rendition of her 2006 hit "Stars Are Blind." The celebration underscored Hilton's commitment to family and her ability to balance her personal life with her professional endeavors. Reunion with Nicole Richie and New Reality Show Hilton has reunited with longtime friend Nicole Richie, with whom she originally starred in the reality TV show "The Simple Life" over two decades ago. The duo is reportedly developing a new reality series titled "Paris & Nicole: The Encore," which has generated significant buzz among fans and the entertainment industry. Production companies, including James Corden's Fulwell 73, are reportedly interested in the project, signaling a potential return to reality television for the pair. Ongoing Advocacy and Public Appearances Hilton's advocacy efforts have taken her to Capitol Hill, where she has testified before the House Ways and Means Committee, sharing her personal experiences to push for more accountability in treatment facilities. Her dedication to this cause highlights her commitment to leveraging her platform for social change. In summary, Paris Hilton remains a multifaceted figure, seamlessly blending her roles as an advocate, musician, reality TV star, and family woman. Her recent activities reflect a deep commitment to personal growth, social responsibility, and a return to her entertainment roots, all while maintaining a strong presence in both her professional and personal life.
جمعرات، 19 دسمبر، 2024
بدھ، 18 دسمبر، 2024
ہفتہ، 14 دسمبر، 2024
*شام کی جیل میں قیدیوں کی دلخراش اور حیران کن باتیں
*شام کی جیل میں قیدیوں کی دلخراش اور حیران کن باتیں!* (١)رہائی کے بعدقیدی کو معلوم ہوا،کہ موبائل فون بھی دنیا میں ایجاد ہو چکا ہے، (قید کی مدت ٤٠سال) (٢)جب مجاہدین نے جیل کا دروازہ کھول کر قیدیوں کو کہا چلو چلو تم آزاد ہو، تو قیدی نے پوچھا کہ کیا صدام حسین نے اسد خاندان کا خاتمہ کردیا ہے، اسے نہیں معلوم کہ صدام حسین خود دنیا میں نہیں ہے - (قید کی مدت ٣٠ سال) (٣)کچھ قیدی ایسے تھے جو جیل میں ہی پیدا ہوئے، اور انہوں نے سورج دھوپ، درخت، گھاس وغیرہ جیل سے رہائی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھے- (٤) جیل میں ایسی درد ناک سزائیں دی گئی، کہ قیدی مجنون اور پاگل ہوگئے، ان کو اپنا نام، شہر، اور علاقہ بھی معلوم نہیں - (٥) جیل میں کئیں کئیں دنوں اور ہفتوں تک پانی اور کھانا نہیں دیا جاتا تھا، بے تاب ہوکر قیدی پیشاب پینے پر مجبور ہو تے تھے - (٦)قیدیوں کے لیے جیل کے اندر نماز، روزہ، اور کوئی بھی عبادت ممنوع تھی،- ٧جیل کے اندر ہر وقت آگ کی بڑی بھٹی دہکتی رہتی تھی، جسے حافظ الاسد کی جہنم کہا جاتا تھا، اور جس قیدی کو اس میں جلانا ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا، *اسد کی جہنم میں خوش آمدید* (٨) جیل کے اندرایسی کلنگ مشین تھی، جس میں لاش کو دباکر خون اور ہڈیوں کو الگ الگ کرکے گٹھڑی میں باندھ کر گڈھے میں دبا دیا جاتا تھا _ (٩) قیدیوں کے دانت توڑدئے جاتے تھے، اور کرنٹ کے جھٹکے دئے جاتے تھے (١٠) قیدیوں کے پیر توڑکر ان کو دوڑ نے کے لئے کہا جاتا تھا، اور کھانے کے لئے مرے ہوے چوہے دیے جاتے تھے - (١١) ہر ہفتہ ٢٠سے ٥٠قید یوں کو پھانسی دی جاتی تھی، اور جس کو پھانسی دینی ہوتی اس کو رات بھر پیٹا جاتا تھا - ١٢ جیل کے اندر نمک کی کان بنا رکھی تھی، قیدیوں کو زخمی کر کے نمک پر لٹایا جاتا تھا - ١٣ ایک قیدی کارہائی کے بعدکہنا ہے کہ، آج میری اور میرے ٥٠ ساتھیوں کی پھانسی کا دن تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے آج ہی مجاہدین کو فتح عطاء فرمادی - بدنام زمانہ صیدنایا جیل اسد خاندان کی بنائی ہوئی ایسا بوچڑ خانہ ہے، کہ جس کی دردناک المناک اور دلخراش داستان سن کر، امریکہ کی گونتا نامو بے جیل جنت لگتی ہے - `آئیے عوامی شعور کی بیداری میں ہمارا ساتھ دیں ہمارا پیغام دوسروں تک پہنچائیں
پیر، 9 دسمبر، 2024
دمشق کی ہولناک جیل صدنایا جسے اسدی جہنم سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے
شامی اپوزیشن کی اتحادی فوج نے طوفانی پیش قدمی کرتے ہوئے بالآخر دارالحکومت دمشق کو بھی آزاد کرا لیا۔ یوں اسدی آمریت کا سورج ساٹھ برس بعد ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ خوں آشام درندہ، بشار الاسد ملک سے فرار ہوگیا۔ اس کو لے کر جانے والے طیارے کی نامعلوم مقام کی طرف جانے کے باعث اس کی موت کی متضاد اطلاعات ہیں تاہم ابھی تک کنفرم نہیں ہوا کہ وہ زندہ ہے یا دھرتی اس کے نجس وجود سے پاک ہوگئی ہے۔ اس سیاہ دور کے خاتمے پر شام بھر میں عوام کا جشن جاری ہے۔ اپوزیشن کے فوجیوں نے جن شہروں اور قصبوں کو اسدی فوج سے آزاد کرایا، وہاں قائم جیلوں اور عقوبت کدوں کے دروازے کھول دیئے اور بے گناہ قیدیوں کو رہا کر دیا۔ شامی حکومت کے ان عقوبت خانوں سے رہا ہونے والے شہریوں نے نہایت بھیانک داستانیں میڈیا کو سنائی ہیں اور قید کے دوران انسانیت سوز مظالم بیان کیے ہیں۔ ہم ان ساری داستانوں کو بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی تمام جیلوں اور عقوبت کدوں کی تفصیلات کی یہاں گنجائش ہے تاہم ایک جھلک آپ کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ اس ایک آدھ دانے سے باقی دیگ کا آپ خود اندازہ لگا سکیں۔ آمریت کے اس تاریک دور میں شام میں لوگوں کی آواز دبانے کے لیے انہیں گرفتار کرکے کئی کئی برس تک سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ ستر کی دہائی سے جاری رہا۔ چنانچہ تدمر، طرطوس اور دمشق سمیت ہر شہر بلکہ چھوٹے قصبوں میں بھی جیلوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہوگیالیکن ان میں سب سے زیادہ بدنامی دمشق کے مضافات میں واقع صیدنایا نامی جیل کے حصے میں آئی۔ جسے حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں مختلف ناموں سے یاد کرتی ہیں۔ اسے ہیومن سلاٹر ہائوس، بلیک ہول، ریڈ جیل کے ساتھ دنیا کا سب سے خطرناک عقوبت کدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اتوار کی صبح اپوزیشن نے دمشق پر قبضہ کرتے ہی اس مذبح خانے کا دروازہ کھول دیا۔ جس سے ساڑھے تین ہزار قیدی برآمد ہوئے۔ تاہم یہ سب اوپر کی منزلوں میں تھے۔ زیر زمین دو فلور اتوار کی شام تک نہیں کھولے جاسکے۔ وہ بھی قیدیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن وہاں تک رسائی کا راستہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ قصاب یہ خفیہ راستے بند کرکے بھاگ چکے تھے۔ میڈیا پر دنیا بھر کے ماہرین سے اپیل کی گئی کہ وہ کوئی تکنیک بتائیں کہ کس طرح ان مظلوموں تک رسائی حاصل کی جائے۔ تاہم رات گئے اس کا ایک حصہ کھول دیا گیا۔ جسے القسم الاحمر یعنی ریڈ سیکشن کہا جاتا ہے۔ یہاں سے سینکڑوں قیدی رہا ہوئے۔ القسم الاحمر دراصل پھانسی گھاٹ ہے، جنہیں قتل کرنے کا فیصلہ ہوتا انہیں اس سیکشن میں منتقل کر دیا جاتا۔ صیدنایا کو عرب میڈیا میں المسلخ البشري یعنی انسانی مذبح خانہ اور السجن الاحمر سرخ جیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گوانتانا موبے جیل اس کے سامنے عشرت کدہ ہے۔ یہاں کتنے قیدی قتل ہوئے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ یہاں سے باہر نکلنے والی نکاسی کی لائن سے خون بہتا ہوا دیکھا گیا تھا۔ جی ہاں، انسانی خون کی ندی۔ یومیہ کم از کم 50 شامیوں کو یہاں قتل کیا جا رہا تھا۔ اس جیل کے احاطے سے ہزاروں افراد کی کھوپڑیاں بھی برآمد ہونے کا امکان ہے۔ اس جیل کے اندر ایک شمشان گھاٹ بھی ہے، جہاں قیدیوں کی باقیات کو جلایا جاتا تھا۔ یہاں 2011ء سے 2015ء تک 13 ہزار قیدیوں کا گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ اسدی حکومت نے 2017ء میں یہاں ہزاروں قیدیوں کو زندہ جلا دیا تھا تاکہ ان کی ہلاکتوں کو چھپایا اور جنگی جرائم کے ثبوتوں کو مٹایا جا سکے۔ یہاں قیدیوں کو کئی دنوں تک پانی اور کھانا نہیں دیا جاتا، حتیٰ کہ وہ اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبور ہو جاتے، جیسا کہ ایک سابق قیدی نے انکشاف کیا تھا۔ قیدیوں کو صیدنایا میں شدید ترین تشدد کا سامنا ہوتا ہے، پائپ، دھاتی سرپٹ یا ڈنڈوں سے مسلسل مارا جاتا ہے۔ تشدد کے لیے جیل میں “بساط الريح یا طیارہ قالین” استعمال کیا جاتا ہے، جو ایک آلہ ہے، جس میں ایک فولڈنگ بورڈ پر قیدی کو لٹایا جاتا ہے اور اس کا چہرہ اوپر کی طرف کیا جاتا ہے، پھر بورڈ کے ہر حصے کو ایک دوسرے کی طرف حرکت دی جاتی ہے۔ یہاں قیدیوں کو دوا دینے یا علاج کرانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ خواتین کے لیے یہ دہرا جہنم ہے۔ عصمت دری، بلکہ اپنے مرد رشتہ داروں کے سامنے عزت لوٹنا صیدنایا کا معمول رہا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں مرد قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ صیدنایا کے ایک زندہ بچ جانے والے قیدی نے بتایا کہ قیدیوں کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو خود مر جائیں یا اپنے کسی قریبی عزیز یا جاننے والے کو مار دیں۔ نمک کے کمرے: یہ کمرے نمک سے بھرے ہوتے ہیں، جن کی سطح تقریباً 20 سے 30 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے اور یہ قیدیوں کو ذہنی طور پر عذاب دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں ان قیدیوں کی لاشیں رکھی جاتی ہیں جو تشدد یا بھوک سے مر چکے ہوتے ہیں۔ ہر لاش پر ایک نمبر لکھا جاتا ہے، پھر اسے نمک میں 48 گھنٹے تک رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے تشریں اسپتال لے جایا جاتا ہے تاکہ موت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکے اور پھر اسے فوجی پولیس والے لے جا کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیتے ہیں۔ یہ جیل ہے بھی سیاسی قیدیوں خاص کر اخوان المسلمون کی قیادت اور کارکنوں کے لیے۔یہ محض ایک جھلک ہے، جو الجزیرہ نے دکھائی ہے، ورنہ صیدیانا کے مظالم پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ گوگل میں “جثث سجن صيدنايا” لکھ کر سرچ کرکے ان قیدیوں کی تصاویر بھی دیکھی جاسکتی ہیں، جنہیں بھوکا رکھ کر مارا گیا اگر ہمت ہے تو۔ کچھ داستانیں: اتوار کو اس جیل سے رہائی پانے والے ایک دمشقی شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس رب کی قسم، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہماری پھانسی کے لیے آج کا دن مقرر تھا، اب سے نصف گھنٹہ پہلے مجھ سمیت 54 قیدیوں کو تختہ دار لٹکانے کی فہرست جاری ہو چکی تھی۔ اگر اپوزیشن جنگجو صیدنایا کا دروازہ نہ توڑتے تو اب تک مجھے اور ان قیدیوں کو پھانسی دی جا چکی ہوتی۔ اس جیل سے ایسے قیدی بھی نکلے ہیں جنہیں ابھی تک نہیں معلوم کہ حافظ الاسد ( بشار الاسد کا باپ) مر گیا ہے یا زندہ ہے۔ قیدی نمبر 1100: “میرا نام وہاں قیدی نمبر 1100 تھا۔ یہ 2019ء کی بات ہے کہ شادی کے 2 ماہ بعد مجھے حماہ شہر کے “البطاطا چیک پوائنٹ” پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، پہلے حلب کی عسکری انٹیلی جنس برانچ اور پھر وہاں سے 3 سال کے لیے اسٹیٹ سیکورٹی میں رکھا گیا، بعدازاں حلب کی مرکزی جیل منتقل کر دیا گیا، میرے ساتھ یہاں جو ہوا، سو ہوا، لیکن میں اس 16 سالہ لڑکی کی گرفتاری اور تشدد کے نتیجے میں اس کی موت کو نہیں بھلا سکتی۔ وہ کربناک منظر میری زندگی کا روگ بن کر دماغ سے ہمیشہ کے لیے چپک گیا ہے، جب ہمارے عقوبت کدے میں یونیورسٹی کی 16 سالہ لڑکی کو لایا گیا۔ وہ لہولہاں تھی۔ میرے پاس پٹی کا کپڑا نہیں تھا، اس لیے اپنے جسم کے کپڑے پھاڑ کر اس کے سر پر پٹی باندھی۔ اس کے سر پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ سارے بال جھڑ چکے تھے۔ دو روز تک اس کی سانس چلتی رہی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ اس کے ساتھ ایک بزرگ خاتون اور دو خواتین ڈاکٹرز بھی قید تھیں، جن پر انقلابیوں کا علاج کرنے کا الزام تھا۔ جب کوئی قیدی تشدد سے مر جاتا تو اسے ایک کمبل میں لپیٹ کر ہمارے ساتھ ہی کمرے میں چھوڑ دیا جاتا تھا اور بعد میں اسے کسی نامعلوم جگہ لے جایا جاتا۔ خواتین کے لیے اسدی جیلوں سے جہنم بھی زیادہ مناسب مقام ہوگا۔ “ہم یقین نہیں کر سکتے تھے کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم کبھی روشنی دیکھ سکیں گے۔ خوشی اتنی بڑی تھی کہ ہم نے نعرے لگائے، تکبیریں بلند کیں اور خواہش کی کہ ہم اپوزیشن فوجیوں کو گلے لگا سکیں اور ان کے ہاتھ چوم سکیں۔” (رہائی پانے والی خاتون ہالہ ام ربیع کی الجزیرہ سے گفتگو) صافی یاسین: مجھے 7 مئی 2011 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد میرے لیے جسمانی اور نفسیاتی اذیت کا ایک طویل سفر شروع ہوا، جو تقریباً 14 سال تک جاری رہا۔ میں نے صيدنايا جیل میں ایک پورا سال گزارا۔ وہاں کا تشدد ایسا تھا کہ اسے بیان کرنا یا لکھنا ممکن نہیں۔ جو مناظر میں نے وہاں دیکھے، وہ میری یادداشت سے موت تک مٹ نہیں سکتے۔ میں اس ضعیف شخص کو کبھی نہیں بھول سکتا، جو خون میں لت پت تھا اور کچھ وقت بعد وفات پا گیا۔ مجھے 31 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مگر اللہ نے اپوزیشن کی برکت سے رہائی نصیب فرما دی۔ محمد ماہر:”7 نومبر 2017 کو، مجھے حمص کے ایک چیک پوائنٹ پر گرفتار کیا گیا، ہر لمحہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے موت قریب ہے، اس قدر تشدد اور وحشیانہ طریقے تھے جنہیں ایک جانور بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن جو بات مجھے کبھی نہیں بھولے گی وہ یہ تھی کہ جب میں میزہ سیکورٹی برانچ میں تھا، ایک بس آئی جس میں کچھ قیدیوں کو منتقل کیا گیا تھا اور ان میں ایک قیدی تھا جو میرے بہنوئی سے ملتا جلتا تھا۔ میں نے پہلے دل میں کہا کہ یہ ایمن نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں کہ وہ ہو، کیونکہ اِس شخص کے دونوں پاؤں نہیں ہیں، میرا بہنوئی ایسا نہیں تھا۔ پھر میں اس کے قریب گیا اور اس سے اس کا نام پوچھا تاکہ میں شک کو یقین میں بدل سکوں، لیکن سب سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ وہ دماغی طور پر مفلوج تھا، اس لیے وہ اپنا نام نہیں بتا سکا۔ پھر میں نے اس کی کلائی پر موجود ایک خاص کڑے سے اس کو پہچان لیا، جس پر “رضاکِ يا أمي” لکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اس کا نام اور میری بہن کے نام کا پہلا حرف نقش تھا۔ میں نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ اسدی حکومت نے عوامی تحریک کے آغاز یعنی مارچ 2011ء سے اگست 2024ء تک 136,614 شامیوں کو قید کرکے جیلوں میں ڈالا تھا، جن میں 3,698 بچے اور 8,504 خواتین شامل ہیں
لیبلز: دمشق کی ہولناک جیل صدنایانجسے اسدی جہنم سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے
ہفتہ، 7 دسمبر، 2024
کمرشل فلائٹس کی موجودگی میں #شام چھوڑ دیں: #امریکہ کی اپنے شہریوں کو ہدایت
مسلح دھڑوں کی صدر بشار الاسد کی افواج کے خلاف اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں امریکی محکمۂ خارجہ نے جمعے کو اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر ملک چھوڑ دیں "جب تک کمرشل پروازوں کے آپشنز دستیاب ہیں۔" محکمۂ خارجہ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے سکیورٹی الرٹ میں کہا، "ملک کے طول و عرض میں مسلح گروپوں کے درمیان فعال جھڑپوں کے ساتھ سلامتی کی صورتِ حال غیر مستحکم اور غیر متوقع ہے۔ محکمہ امریکی شہریوں سے تاکید کرتا ہے کہ وہ فوراً شام سے نکل جائیں جبکہ کمرشل پروازوں کے آپشنز دستیاب ہیں۔"
بدھ، 20 نومبر، 2024
ایک حکیم سے پوچھا گیا: زندگی میں کامیابی کیسے حاصل ہوتی ہے؟ حکیم نے کہا اس کا جواب لینے کےلیے آپ کو آج رات کا کھانا میرے پاس کھانا ہوگا۔ سب دوست رات کو جمع ہوگئے۔ اس نے سوپ کا پیالہ لا کررکھ دیا۔ مگر سوپ پینے کے لیے ایک میٹر لمبا چمچ دے دیا۔ سب کو کہا کہ آپ نے اسی لمبے چمچ سے سوپ پینا ہے۔ ہر شخص نے کوشش کی، مگر ظاہر ہے ایسا ناممکن تھا۔ کوئی بھی شخص چمچ سے سوپ نہیں پی سکا۔ سب بھوکے ہی رہے۔ سب ناکام ہوگئے تو حکیم نے کہا: میری طرف دیکھو۔ اس نے چمچ پکڑ ا، سوپ لیا اور چمچ اپنے ساتھ والے شخص کے منہ سے لگا دیا۔ اب ہر شخص نے اپنا چمچ پکڑا اور دوسرے کو سوپ پلانے لگا۔ سب کے سب بہت خوش ہوئے۔ سوپ پینے کے بعد حکیم کھڑا ہوا اور بولا: جو شخص زندگی کے دسترخوان پر اپنا ہی پیٹ بھرنے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ بھوکا ہی رہے گا۔ اور جو شخص دوسروں کو کھلانے کی فکر کرے گا، وہ خود کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔ دینے والا ہمیشہ فائدہ میں رہتا ہے، لینے والے سے۔ آپ زندگی میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے، جب تک آپ کے دوست احباب کامیاب نہیں ہوتے۔ ہر تاجر کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر بزنس مین فائدہ کمانا چاہتا ہے۔ ہر مالک اپنی کمپنی کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر یاد رکھیے! جب تک آپ کا ملازم خوش نہیں ہوگا، کمپنی ترقی نہیں کرسکتی۔ جب تک کارکن کامیاب نہیں ہوتا، کمپنی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ آج ہر کمپنی کا مالک اپنے ملازم کی تنخواہ کاٹ کر کامیاب ہونا چاہتا ہے، مگر یاد رکھیے! کامیابی کا راستہ کامیاب ملازم سے ہوکر گزرتا ہے۔ انگریزی کا مقولہ ہے: A Happy Worker is a Productive Worker (خوش ملازم ہی تخلیقی صلاحیت دکھاتا ہے) جس ملازم کے گھر میں پریشانیوں کا راج ہو، وہ ملازمت کے دوران کتنی توجہ سے کام کرے گا؟ جس کے پاس بیمار بچے کے علاج کے لیے پیسے نہیں وہ کس طرح تندہی اور خوش اسلوبی سے کام کرسکتا ہے؟ حال ہی میں گیلپ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ صرف امریکا میں ناراض ملازموں کی وجہ سے 300 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ یہ نقصان آپ کی کمپنی سمیت ملک بھر کی کمپنیوں میں بھی ہورہے ہیں۔ ہمارے افسران چاہتے ہیں کہ ملازم ان کی عزت کریں، مگر کوئی بھی اپنے ملازم کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک ملازم کا خیال نہیں رکھیں گے، اس کو اپنی طرح کا انسان نہیں سمجھیں گے، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت نہیں سمجھیں گے اور اس کے درد کو محسوس نہیں کریں گے، کامیابی کی منزل آپ سے روٹھی ہی رہے گی۔ اسلام بھی اسی کی تعلیم دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یہ تو تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے تمہارا ملازم بنا دیا ہے۔ جس شخص کا کوئی ملازم ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے کھانے میں سے اسے کھلائے، اپنے جیسے کپڑے پہنائے، اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ دے، اگر زیادہ کام دے تو اس کی مدد بھی کرے۔ (مصنف عبدالرزاق: 17965) آپ کا ملازم غلطی کرتا ہے مگر اس پر آپ کس قدر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک منٹ دیر سے پہنچے تو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ کبھی بروقت کام نہیں کررہا تو سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ بات بات پر ملازم کی تنخواہ کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر آئیے! نبوی طریقہ معلوم کیجیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے ایک سوال کیا: اے اللہ کے نبی! ہم اپنے خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے تیسری بار سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز اسے ستر مرتبہ معاف کرو۔ (ابوداؤد، رقم: 5164
منگل، 19 نومبر، 2024
1 میں تھکا ہارا بس میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کہ دل کو اطمینان ہوا کہ دو سیٹیں خالی ہیں میں لپک کر ایک سیٹ پر جا بیٹھا۔ بیجنگ کی اس مصروف شاھراہ پر بس میں بیٹھنے کےلیے جگہ مل جانا کسی غنیمت سے کم نہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب میں کام کی تلاش میں چار گھنٹے سے مارا مارا پھر رھا تھا۔ خیر الله کا شکر ادا کیا اور سستانے لگا۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک معمر جوڑا بس میں داخل ہوا خاتون ذرا تندرست معلوم ہوتی تھیں لپک کر میرے سامنے موجود خالی سیٹ پر براجمان ہو گئی لیکن بس میں اور کوئی سیٹ خالی نہ پا کر اس کا شوہر حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ُادھر دیکھنے لگا۔ سب اپنی اپنی مستی میں مگن رہے اور پوری بس میں سے کسی کو بھی اس بات کا خیال نہ آیا کہ ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے... یوں تو میں کافی تھکا ھوا تھا اور میری منزل بھی ابھی خاصی دور تھی لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے اس بوڑھے کےلیے جگہ خالی کر دی خود اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اس وقت بوڑھے کی اۤنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دی اور اس نے بس میں لگا ہینڈل جس کو ایک ہاتھ سے تھا مے وہ سہارا لیے کھڑا تھا چھوڑ کر مجھے سلیوٹ کیا اس عمل کے دوران وہ گرتے گرتے بچا میں نے اسے سہارہ دیکر سیٹ پر بٹھا دیا بیٹھنے کے بعد بوڑھے نے مجھ سے پوچھا تم مقامی نہیں لگتے کس ملک سے سے تعلق رکھتے ہو میں نے کہا کہ پاکستان سےاس نے کہا کہ پاکستان میں تو شاید مسلمان رہتے ہیں نا میں نے کہا جی پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اس نے کہا کہ: "اسی لیے تم نے میرے لیے سیٹ چھوڑ دی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تمہیں تمہارا دین اور تمہارے ملک کی روایات یہی سکھاتی ہیں ۔" یہ کہہ کر وہ اپنی بیوی کو میرے بارے میں بتانے لگ گیا کہ اسکا تعلق ایک مسلم ملک پاکستان سے ہے اور وہ بوڑھی عورت عقیدت اور محبت کی نظروں سے مجھے دیکھنےلگ گئی اس بوڑھے کی بات سن کر اور اسکی بیوی کی وہ محبت بھری نظر دیکھ کر میرا سینہ تن سا گیا اور مجھے اپنے دین کی تعلیمات اور اپنے بزرگوں کی تربیت پر رشک اۤنے لگا.. اس دن مجھے کھڑے ہوکر سفر کرنے سے جو دلی سکون ملا وہ شاید لفظوں میں بیان نہ ہو سکے اور مجھے پہلی بار اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا... "اس واقعہ كو شئیر کرنے کا مقصد یہ ھے کہ ہمارا چھوٹا سے چھوٹا کام خواہ وہ اچھا ھو یا برا وہ ھمارے ملک اور ھمارے پیارے دین اسلام کی تعلیمات کو ظاہر کرتا ہے اسلیے ہم سب کو کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا یہ کام یا تو ہمارے دین اور ملک کی نیک نامی کا سبب بن رہا ہے یا پھر بدنامی کا۔ "https://unwantedpointingwaspish.com/ss0js5w0d?key=9a87b9e27ea3c2b75d386fe0ae7e6e7a
کھجور کے زبردست فوائد
سردیوں میں کھجوریں کھانے کے فوائد کیا ہیں ؟ کھجوریں وہ چیز ہیں جس میں ذائقے کے ساتھ کئی حیرت انگیز فوائد چھپے ہیں جو انسانی صحت کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ہم اپنی غذا میں موسم کی مناسبت سے اشیا شامل کرتے ہیں تو نا صرف ہمارا جسم توانا رہتا ہے بلکہ ہم مختلف بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ کھجوروں میں قدرتی مٹھاس کے علاوہ وٹامنز، معدنیات، فائبر، کیلشیم، پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیمہوتا ہے۔ ان میں حل ہونے اور نہ حل ہونے والے فائبرز ہوتے ہیں جو نظام ہاضمے کو ٹھیک رکھتے ہیں۔ کھجور میں شفا بخش قوتیں پائی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں کم از کم 30 قسم کی کھجوریں ہوتی ہیں جن میں گلوکوز، سوکروز اور فریکٹوز پائے جاتے ہیں۔ ہڈیوں میں درد کیلشیم اور وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہوتا ہے اور کھجوروں میں کیلشیم کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی سمیت فائبرز، منرلز اور مختلف قسم کے وٹامنز قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جو جسم کی ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ان میں درد نہیں ہونے دیتے۔ کھجوریں سردیوں میں جسم کو گرمائش پہنچاتی ہیں۔ کھجور کو کئی پکوانوں میں قدرتی میٹھے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آپ کوئی میٹھا بناتے وقت چینی کی جگہ کھجوریں شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سردیوں میں جلد اپنا قدرتی تیل کھو دیتی ہے، کھجوروں کا استعمال جلد بہتر اور خوبصورت کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کھجور جلد کو جوان بنانے اور فری ریڈیکلز کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے۔ کھجور آئرن سے بھرپور ہوتی ہے جو ہیموگلوبن کی سطح کو بڑھانے میں مدد کر سکتی ہے اور خون کے سرخ خلیوں (ریڈ بلڈ سیلز) کی پیداوار کو بڑھاتی ہے۔